دسمبر مجھے
نہیں ہے نہ کوئی گلہ ہے
کہ تو نے مجھے بے سبب سی
اُداسی کا تحفہ دیا ہے
نہ مجھ کو تری سرد راتوں کی تنہائیوں
میں کسی اپنے غم کو جلا کر اُسے تاپنا ہے
نہ تجھ سے کوئی بات کہنی ہے مجھ کو
دسمبر!
حقیقت یہی ہے کہ میں تیرے آنے
سے ہہلے بھی ایسا ہی تھا
نارسائی کے غم میں سلگتا، اداسی کی
چادر میں لپٹا اور اپنے ہی اندر کی
ویرانیوں پر کبھی شعر کہتا
کبھی نظم لکھتا
دسمبر!
حقیقیت یہی ہے ترے بعد بھی میرے
معمول میں کوئی تبدیلی آئے
یہ ممکن نہیں
سالہا سال سے میں اسی دائرے
میں سفر کر رہا ہوں
ترا دوش کوئی نہیں ہے دسمبر!
مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے
No comments:
Post a Comment